نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہو گا
Ø+یات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا

نئی سØ+ر Ú©Û’ بہت لوگ منتظر ہیں مگر
نئی سØ+ر بھی کجلا گئی تو کیا ہو گا

نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے
میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہو گا

غمِ Ø+یات سے بے Ø´Ú© ہے خود Ú©Ø´ÛŒ آسان
مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہو گا

شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو!
خزاں سرشتِ بہار آ گئی تو کیا ہو گا

یہ فکر کر کے اس آسودگی کے ڈھوک میں
تیری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہوگا

خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر
جو روØ+ غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہو گا